مندرجات کا رخ کریں

عفان بن مسلم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عفان بن مسلمؒ
(عربی میں: عفان بن مسلم بن عبد الله الصفار ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 752ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 835ء (82–83 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش بغداد [1]  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام [1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عفان بن مسلم علم حدیث اور جرح و تعدیل میں بلند مقام رکھتے ہیں۔

نام ونسب

[ترمیم]

نام عفان ،کنیت ابو عثمان الصفار اورباپ کا اسمِ گرامی مسلم تھا عزرہ بن ثابت الانصاری کے غلام تھے،اسی باعث انصاری کہے جاتے ہیں، بصری وطن کی طرف نسبت ہے، بعد میں ترکِ وطن کرکے بغداد میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی صفار کی وجہ تسمیہ معلوم نہ ہو سکی،اغلباً یہ لقب ہوگا۔

ولادت

[ترمیم]

ان کے سالِ ولادت کے بارے میں کوئی یقینی ثبوت نہیں ملتا،البتہ ابن سعد کی ایک روایت کی بنیاد پر محققین نے قیاس آرائی کی ہے کہ وہ 134ھ میں پیدا ہوئے؛چنانچہ محمد بن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ:میں نے 210ھ میں عفان بن مسلمؒ کو یہ کہتے سُنا کہ اس وقت میری عُمر 76 برس ہے۔ چونکہ ابن سعد کو عفان سے تلمذ کی سعادت نصیب تھی،اس لیے ان کا بیان قرینِ صحت ہو سکتا ہے [2]وہ اصلا بصرہ کے رہنے والے تھے اور وہی ان کا مواردو منشا بھی ہے،لیکن بعد میں ترکِ وطن کرکے بغداد میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔

فضل وکمال

[ترمیم]

امام عفان علمی حیثیت سے ائمہ اسلام اورعلمائے اعلام میں شمار کیے جاتے ہیں وہ حدیث کے اہم ستون تھے ،بغداد میں ان کی ذات علم کا مرکز ومنبع تھی، جہاں سے اقصائے عالم کے دارفتگان شوق نے اپنی دنیائے علم آراستہ کی۔ علاوہ ازیں حق گوئی،راست بازی ،اتباعِ سنت اور تثبت واتقان میں ان کی مثال کم ملتی ہے،اہل تذکرہ نے بہت نمایاں طور پر ان کے فضل وکمال کا اعتراف کیا ہے،ابن عماد الحنبلی رقم طراز ہیں۔ احدارکان الحدیث نزل بغداد ونشربھا علم (شذرات الذہب:472) وہ حدیث کے ایک اہم رکن تھے بغداد آکر علم کی اشاعت کی۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: محدث بغداد الحافظ الثبت ھومن مشائخ الاسلام والائمۃ الاعلام [3]وہ محدث بغداد اورحافظ ثبت تھے اسی طرح ان کا شمار اسلام کے بلند مرتبہ شیوخ اورائمۃ میں ہوتا ہے۔

شیوخ وتلامذہ

[ترمیم]

انھوں نے جن کبار شیوخ سے حدیث کی تحصیل وروایت کی ان میں شعبہ، حماد بن سلمہ، سلیمان بن مغیرہ،ہمام بن یحییٰ،حماد بن زید،وہیب بن خالد،ابو عوانہ،عبد اللہ بن بکر، عبد الوارث بن سعید اورسلیم بن حیان کے نام لائقِ ذکر ہیں۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین، ابو خثیمہ،خلف بن سالم،محمد بن سعد کاتب الواقدی،قتیبہ بن سعید، علی بن المدینی،ابوبکر بن ابی شیبہ،ابراہیم بن اسحاق ابوزرعہ،ابو حاتم الرازی،بندار،اسحاق بن راہویہ،محمد بن یحییٰ الذہلی اورقتیبہ بن سعید، وغیرہ بکثرت نامور ائمہ ان سے تلمذ کا شرف رکھتے ہیں۔ [4]

جرح و تعدیل

[ترمیم]

تقریباً تمام علمائے فن نے امام عفان کی ثقاہت،تثبت اوراتقان پر مہر تسلیم ثبت کی ہے، یحییٰ بن سعید القطان اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر عفان کی روایت میرے موافق ہوتو پھر مجھے کسی اورکی مخالفت کی کوئی پروا نہیں [5]امام احمدؒ کا ارشاد ہے: مارأیت احداً احسن حدیثا منہ عن شعبۃ [6] میں نے حضرت شعبہ سے روایت کرنے والا کسی کو امام عفان سے بہتر نہیں دیکھا۔ حافظ ابن معین تو ان کے مرتبہ تثبت کی بلندی کے اس حد تک معترف تھے کہ وہ جرح و تعدیل کے مشہور آفاق امام عبد الرحمن بن مہدی پر بھی عفان کو ترجیح دیتے تھے،یعقوب بن شیبہ کا بیان ہے کہ: کان عفان ثقۃ تثبتا متقنا صحیح الکتاب قلیل الخطاء واسلقط امام عفان ثقہ،ثبت اورمتقن تھے ان کی کتاب صحیح تھی جس میں غلطی وغیرہ کم تھی۔ ابن خراش فرماتے ہیں: عفان بن مسلم بصری ثقۃٌ من خیار المسلمین [7]امام عفان بصرہ کے رہنے والے ثقہ اوربہترین لوگوں میں تھے۔ اس کے ساتھ بعض علما نے ان پر نقد وجرح کا حق بھی ادا کیا ہے کہا جاتا ہے کہ وفات سے ایک سال قبل یعنی 219ھ میں وہ سوءِ حافظہ کے شکار ہو گئے تھے جس کی وجہ سے تخلیط روایات کے مرتکب ہوجاتے،ابو خثیمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عفان کے انتقال سے چند ماہ قبل ان کی روایات قبول کرنا ناپسند کر دیا تھا اس کے علاوہ سلیمان بن حرب نے انھیں "ردی الحفظ" اور"بطی الفھم" قرار دیا ہے۔ اس تمام جرح کا شافی جواب حافظ ذہبی نے میزان میں دیا ہے؛چنانچہ تخلیط کے متعلق وہ لکھتے ہیں: ھذا التغیر من تغیر مرض الموت وماضرہ لانہ ماحدث فیہ بخطاء [8]یہ تغیر (سوء حافظہ)مرض موت میں پیدا ہوا؛ لیکن اس سے ان کی ثقاہت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا،کیونکہ اس زمانہ میں بھی انھوں نے کوئی غلط حدیث روایت نہیں کی۔ اورسلیمان بن حرب کے اعتراض کے بارے میں ذہبی کی رائے ہے: عفان أجل وأحفظ من سليمان ،و هو نظيره، وكلام النظير والاقران ينبغي أن يتأمل ويتأنى فيه [9] عفان سلیمان سے زیادہ جلیل المرتبت حافظ تھے،پھر وہ ان کے معاصر تھے اور معاصرین کی رائے محل غور اورلائقِ نظر ہوتی ہے۔

اتباعِ سُنت

[ترمیم]

حدیثِ نبوی سے غیر معمولی شغف ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ سنت کی اتباع نہایت شدت کے ساتھ کرتے تھے، جوبات بھی شریعتِ نبوی کے شفاف دامن پر داغ محسوس ہوتی،ہمیشہ اس سے محترز رہتے ،خواہ اس راہ میں کتنے شدائد سے دوچار ہونا پڑے، غالباً اسی تمسک باالسنہ کے باعث عجلی انھیں "صاحب السنۃ" کہتے ہیں۔ [10]

راست گوئی اوراستغناء

[ترمیم]

امام عفان کی زندگی کا ایک درخشاں باب حق گوئی اوراس کے ساتھ شانِ بے نیازی بھی تھی،حق کے معاملہ میں کبھی نہ تو اربابِ سطوت کے سامنے سرخم کیا اورنہ مال وزر کی حرص اُن کے پائے استقامت کو متزلزل کرسکی، بروایت صحیح منقول ہے کہ ایک بار ان کو دس ہزار دینار اس غرض کے لیے دیے جا رہے تھے کہ فلاں شخص کی تعدیل کے بارے میں سکوت اختیار کر لیں،نہ اسے عدول کہیں اورنہ غیر عدول،لیکن امام عفان نے اس پیشکش کو ردکردیا اورفرمایا کہ: لا ابطل حقا من الحقوق [11] میں کسی شخص کا حق ختم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح حضرت فلاس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے امام عفان کو دو ہزار دینار دے کر کہا کہ آپ فلاں آدمی کی عدالت پر مہر تصدیق ثبت فرمادیجئے۔ امام موصوف نے ایسا کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میں ایک غلط بات کو ہرگز صحیح نہیں کہہ سکتا۔ [12]

آزمائش

[ترمیم]

گذشتہ صفحات میں امام عبد الاعلیٰ بن مسہر کے تذکرہ میں عہدِ مامونی کے مشہور عالم فتنہ خلقِ قرآن کی کسی قدرتفصیل گذرچکی ہے،اس پُر آشوب دور میں جن محدثین وفقہاء کو شدید ترین آزمائش سے گذرنا پڑا، ان میں عفان بن مسلم کا اسم گرامی بھی نمایاں ہے،یوں تو تمام ہی تذکروں میں ابتلا کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن مؤرخ خطیب بغدادی نے اس کی تفصیل خود امام عفان کی زبانی نقل کی ہے،جس کے مستند ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا،اس لیے ہم ذیل میں اسی کو درج کرتے ہیں: خود فرماتے ہیں"خلیفہ مامون الرشید نے رقہ سے بغداد میں اپنے نائب اسحاق بن ابراہیم کے نام یہ فرمان بھیجا کہ تمام مقامی فقہا ومحدثین کو یکجا کرکے ان سے خلقِ قرآن کے عقیدہ کا اقرار لو، چنانچہ اس کے بموجب اسحاق نے دوسرے علما کے ساتھ مجھ کو بھی طلب کیا ،جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے پہلے مامون کا وہ خط پڑھ کر سنایا،جس میں میرے متعلق یہ تحریر تھا: امتحن عفان وادعہ الی،ان یقول القران کذا وکذا فان قال ذالک فاقرہ علیٰ امرہ وان لم یجبک الیٰ مکتبت بہ الیک فاقطع عنہ الذی یجری علیہ [13] امام عفان کی آزمائش کرو اوران کو عقیدہ خلقِ قرآن کا اقرار کرنے کی دعوت دو اگر وہ اس کے قائل ہوجاتے ہیں تو فبہا،لیکن اگر وہ تمھاری بات قبول نہ کریں تو پھر ان کا وظیفہ بند کردو۔ خط ختم کرنے کے بعد اسحاق نے مجھ سے کہا کہ اب تمھارا کیا خیال ہے؟ میں نے اس کے جواب میں پوری سورہ اخلاص پڑھی اورکہا کیا یہ مخلوق ہے؟ اسحاق نے بڑے غصے سے کہا کہ جناب امیر المومنین کا حکم ہے کہ اگر آپ قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار نہیں کرتے تو آپ کو ملنے والا پانچ سو درہم ماہانہ کا وظیفہ بند کر دیا جائے گا۔ بلاشبہ مقصد برآری کے لیے یہ ایک کار گرتدبیر تھی کہ اقتصادی ومعاشی ناکہ بندی کردی جائے،لیکن عفانؒ نے نہایت ثبات قدمی اور صبر واستقلال کے ساتھ جو جواب دیا وہ یقیناً ایک زندہ رہنے والی چیز ہے، فرمایا: "یقول اللہ عزوجل وفی السماءِ رزقکم وَمَا توعدون" یعنی رزق رسانی کا وعدہ تو خود خدا وندِ قدوس نے اپنے بندوں سے کیا ہے،ایک دربند ہوکر دوسرے دروازے رزق کے کھل جاتے ہیں؛چنانچہ یہ جواب سن کر اسحاق بالکل مبہوت ہوکر رہ گیا اورعفانؒ گھر واپس آگئے۔ (بغدادی ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام عفانؒ کو ایک ہزار درہم سرکاری خزانہ سے وظیفہ ملتا تھا۔)

نصرت ایزدی

[ترمیم]

ابراہیم ابن الحسین کہتے ہیں کہ جب عفان ،اسحاق کی طلب پر اس سے ملنے گئے تو میں ان کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا، امام عفانؒ کے انکار پر ان کی سرکاری امداد منقطع کردی گئی؛چنانچہ جب وہ مکان واپس آئے تو گھر والوں نے سارا ماجرا سُن کر ان کو سخت لعنت ، ملامت کی ،راوی کا بیان ہے کہ اس وقت عفان کا گھرانہ چالیس نفوس پر مشتمل تھا، اسی اثنا میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا،دیکھا گیا تومچھلی کی شباہت کا ایک شخص کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں ایک ہزار درہم کی تھیلی تھی،اس نے امام عفانؒ کو وہ تھیلی دیتے ہوئے کہا: ثبتک اللہ کما ثبت الدین وھذا فی کل شہر [14] جس طرح تم نے دین کو مستحکم کیا خدا تمھیں بھی استقامت دے اور ہر ماہ تم کو اسی طرح ایک ہزار کی تھیلی ملتی رہے گی۔

وفات

[ترمیم]

بروایت صحیح ربیع الاول 220ھ میں بمقام بغداد انتقال فرمایا،عاصم بن علی نے نمازِ جنازہ پڑھائی [15] ابوداؤد کا بیان ہے کہ میں بغداد میں امام عفانؒ کے جنازہ میں شریک تھا۔[16]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت ٹ مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام —  : اشاعت 15 — جلد: 4 — صفحہ: 238 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR
  2. ابن سعد:7/51
  3. تذکرۃ الحفاظ:1/348،ومیزان الاعتدال:2/302
  4. تہذیب التہذیب:
  5. تذکرۃ الحفاظ:1/348
  6. (میزان الاعتدال:2/202)
  7. (میزان الاعتدال:2/202)
  8. (میزان الاعتدال:2/203)
  9. (ایضاً:202)
  10. (تہذیب التہذیب:7/231)
  11. (شذرات الذہب:2/48،وتاریخ بغداد:12/270)
  12. (تاریخ بغداد:12/271)
  13. (تاریخ بغداد:12/271)
  14. (میزان الاعتدال:2/202)
  15. (طبقات ابن سعد:7/51)
  16. تاریخ بغداد:12/377